پیشن گوئیاں

اللّٰه کے رَسُول  صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے قیامت کے نشانات بتلاتے ہوئے فرمایا: کہ 
اُونٹوں اور بَکریوں کے چَروَاہے جو بَرہَنَہ بَدَن اور ننگے پاؤں ہونگے وہ ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے لمبی لمبی عمارتیں بنوائیں گے اور فخر کریں گے۔ (صحیح مسلم 8)
Tallest_structures_in_Middle_East
میں ریاض شہر کو دیکھ کر حیران رہ گیا، عمارتوں کایہ مقابلہ آج اپنے عُروج پر پہنچ گیا، دبئی میں ’’برج خلیفہ‘‘ کی عمارت دنیا کی سب سے اُونچی عمارت بن گئی تو ساتھ ہی شہزادہ ولید بن طلال نے جَدَّہ میں اس سے بھی بڑی عمارت بنانے کا اعلان کر دیا ہے جو دھڑا دھڑ بنتی چلی جا رہی ہے، یعنی مقابلہ اپنی اِنتہا پر پہنچ چکا ہے کہ عرب دنیا کی عمارتیں سارے جہان سے اونچی ہو چکی ہیں۔
بتلانے کا مقصد صرف یہ کہ میرے پیارے رسول حضرت مُحمَّد کریم  صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے جو فرمایا وہ پُورا ہو چکا ہے اور پیشگوئی پُوری ہو کر اپنے نُکتۂ کمال کو پہنچ چکی ہے.
اس کے بعد اُصولِ دُنیاوی ’’ہر کمال رَا زَوَال اَست‘‘ کہ ہر کمال کے لئے زوال ہے، زوال کا آغاز بھی ہوچکا ہے کہ گاڑیاں صِرف تیل پر نہیں رہیں بلکہ گیس، بیٹری اور سولر انرجی وغیرہ سے بھی چلنا شروع ہو گئیں۔
تیل دیگر ملکوں سے بھی بہت زیادہ نکلنا شروع ہو گیا اور ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ
عرب کا سب سے زیادہ تیل خریداری کرنے والے امریکہ نے صَدَّام کو ختم کرکے  تیل کی دولت سے سَیراب مُلک عِرَاق پر اپنی کٹ پُتلی شِیعَہ حکومت بنا کر تیل کے کنوؤں پر قبضہ جما لیا ہے اور لاکھوں بیرل مُفت وصول کر رہا ہے تو پھر تیل کی گِرتی مانگ نے تیل کی قیمتوں کو نچلی سطح پر پہنچا دیا جس سے عرب ممالک کا سُنہرا دَور خاتمے کے قریب ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے اس زوال کے بعد کیا ہے؟
اللّٰه کے رَسُول صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم کی ایک اور حدیث ہے کہ قیامت سے پہلے سَرزَمینِ عرب دوبارہ سَرسَبز ہو جائیگی۔۔۔ (صحیح مسلم
کون سوچ سکتا تھا کہ سَرزمینِ عرب کے صحراء اور خُشک پہاڑ کہ جسے اللّٰه تعالیٰ نے خُود حضرت ابراہیم عَليهِ السَّلام کی زبان سے ’’بِوَادٍ غَیر ذِی زَرع‘‘ بے آب و گیاہ وَادِی قرار دیا۔ وہ سَبزے سے لہلا اٹھے گی……
چُنانچہ پُوری دُنیا میں گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کے نَقَّارے بَجنے لگے، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سعودی عرب اور امارات میں بارشیں شروع ہو چکی ہیں۔ اتنی بارشیں اور ہوائیں کہ سیلاب آنا شروع ہو گئے ہیں، مَکَّہ اور جَدَّہ میں سَیلاب آ چکے ہیں۔
ایک سَیلاب چند دن پہلے آیا ہے جس سے چند افراد لُقمۂ اَجَل بھی بن چکے ہیں، اس تبدیلی کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عرب سرزمین جسے پہلے ہی جدید ٹیکنالوجی کو کام میں لا کر سرسبز بنانے کی کوشش کی گئی ہے وہ قدرتی موسم کی وجہ سے بھی سرسبز بننے جا رہی ہے۔ سعودی عرب گندم میں پہلے ہی خودکفیل ہو چکا ہے، اب وہاں خشک پہاڑوں پر بارشوں کی وجہ سے سبزہ اُگنا شروع ہو چکا ہے، پہاڑ سرسبز ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ بارشوں کی وجہ سے آخرکار حکومت کو ڈیم بنانا ہوں گے جس سے پانی کی نہریں نکلیں گی، ہریالی ہو گی، سبزہ مزید ہو گا، فصلیں لہلہائیں گی، یُوں یہ پیشگوئی بھی اپنے تکمیلی مَرَاحِل سے گزرنے جا رہی ہے اور جو میرے حضور صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے فرمایا اسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے جا رہے ہیں.
اگر احادیث پر غور کریں تو مَشرقِ وُسطیٰ کے زوال کا آغاز مُلکِ شام سے شروع ہوا لیکن شاید عرب حُکمران یا تو یہود و نصاریٰ کی چال سمجھ نہ سکے یا بے رخی اختیار کی لیکن وجہ جو بھی ہو یا نہ ہو سرکار صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم کی بتائی ہوئی علامات کو تو ظاہر ہو نا ہی تھا حدیث کے مطابق
چُنانچہ حدیث پاک میں ارشاد ہے
ﺭﺳﻮﻝ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
ﺟﺐ ﺍﮨﻞِ ﺷﺎﻡ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﻭ ﺑﺮﺑﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﯿﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮧ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ۔
(ﺳﻨﻦ ﺍﻟﺘﺮﻣﺬﯼ 2192: ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﺟﺎﺀ ﻓﯽ ﺍﻟﺸﺎﻡ، ﺣﺪﯾﺚ ﺻﺤﯿﺢ)
cover---afp-getty_1445926605
یاد ﺭﮐﮭﯿﮟ! ﺍَﺣﺎﺩﯾﺚِ ﻣُﺒَﺎﺭﮐﮧ ﮐﯽ ﺭُﻭ ﺳﮯ ﺷﺎﻡ ﻭ ﺍﮨﻞِ ﺷﺎﻡ ﺳﮯ ﺍُﻣَّﺖِ ﻣُﺴﻠﻤﮧ ﮐﺎ ﻣُﺴﺘﻘﺒﻞ ﻭَﺍﺑﺴﺘﮧ ﮨﮯ، ﺍﮔﺮ مُلکِ شام ایسے ہی ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮨﻮتے رها ﺗﻮ
ﭘُﻮﺭﯼ ﺍُﻣَّﺖِ ﻣُﺴﻠﻤﮧ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺧﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ۔۔ ویسے تو 90 فیصد برباد ہو چکا………
اب جبکہ پانچ سالہ خُونریزی میں 8 لاکھ سُنّی بےگناه بَچّے، بُوڑھے، عَورتیں شہید اور لا تعداد دُوسرے مُلک کی سرحدوں پر زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے شہید ہو رہے ہیں اور اتنے ہی تعداد میں زخمی یا معذور ہو چکے
لہٰذا شام مُکمَّل تباہی کے بعد اب نزع کی حالت میں ہے.
اس حدیث کے حساب سے عرب ممالک کے سُنہرے دَور کے خاتمہ کی اہم وجہ مُلکِ شام کے مَوجُودَہ حالات ہيں.
گویا نبی صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم  کی ایک اور  پیشگوئی کی عَلامَت ظاہر ہو رہی ہے یا ہو چکی……..
یاد رکھیں! کہ مُلکِ شام کے مُتعلّق اِسرائیل، رُوس، ایران و امریکہ جو بھی جھوٹے بہانے بناے لیکن ان سب کا اَصل ہَدَف جَزیرَةُالعَرَب ہے کیونکہ کُفَّار کا عقیدہ ہے کہ دَجَّال مَسِیحَا ہے اس وجہ سے یہ لوگ دَجَّال کے اِنتظامات مُکمَّل کر رہے ہیں جس کے لیے عرب ممالک میں عَدمِ اِستحکام پیدا کرنا ہے کیونکہ مُلکِ شام پر یہود و نصاریٰ قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور  یہ ہو کر رہیگا حضرت مہدی عَلیهِ السَّلام کے ظہور سے قبل…
چُنانچہ کتابِ فِتَن میں ہے کہ
آخری زمانے میں جب مُسلمان ہر طرف سے مَغلوب ہوجائیں گے، مُسلسل جَنگیں ہوں گی، شام میں بھی عیسائیوں کی حکومت قائم ہوجائے گی،   عُلماء کرام سے سُنا کہ سَعُودی، مِصر،  ترکی بهى باقى نہ رہیگا ہر جگہ کُفَّار کے مظالم بڑھ جائیں گے، اُمَّت آپسی خَانہ
جَنگی کا شِکار رہےگی.
عرب(خلیجی ممالک سعودی عرب وغیرہ) میں بھی مسلمانوں کی باقاعدہ پُرشوکت حکومت نہیں رہےگی، خَیبَر (سعودی عرب کا چھوٹا
شہر مَدینةُالمُنَوَّره سے 170 کم فاصلے پر ہے) کے قریب تک یہود و نصاریٰ پہنچ جائیں گے، اور اس جگہ تک ان کی حکومت قائم ہوجائے گی، بچے کھچے مسلمان مَدِینةُالمُنَوَّرَه پہنچ جائیں گے، اس وقت حضرت امام مہدی عَليهِ السَّلام مدینہ منورہ میں ہوں گے،
دُوسری طرف دریائے طبریہ بھی تیزی سے خُشک ہو رہا ہے جو کہ مہدی عَلیہِ السَّلام کے ظہور سے قبل خُشک ہو گی…
اسلئے  جب مَشرقِ وُسطیٰ کے حالات کو خُصُوصاً مُسَلمانوں اور ساری دُنیا کے حالات کو دیکھتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ دُنیا ہولناکیوں کی جانب بڑھ رہی ہے۔
فرانس میں حَالیہ حَملوں کے بعد فرانس اور پوپ بھی عالمی جنگ کی بات کر چکے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے اس عالمی جنگ کا مرکز کون سا خطہ ہو گا…؟ وَاضِح نظر آ رہا ہے، مَشرقِ وُسطیٰ ہی مُتَوَقّع ہے….
یہاں بھی ہند و پاک کی رَنجِشیں اور کشمکش کے بڑھتے حالات سے بھی لگتا ہے کہ غَزوۂ ہند کی طرف رُخ کر رہے ہیں کیونکہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِىَ اللّٰهُ تَعَالىٰ عَنه سے روایت ہے کہ رَسُولُ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے ارشاد فرمایا:
’’میری قوم کا ایک لشکر وَقتِ آخِر کے نزدیک ہند پر چَڑھائی کرے گا اور اللّٰه اس لشکر کو فتح نصیب کرے گا، یہاں تک کہ وہ ہند کے حُکمرانوں کو بیڑیوں میں جَکڑ کر لائیں گے۔ اللّٰه اس لشکر کے تمام گناہ معاف کر دے گا۔ پھر وہ لشکر وَاپس رُخ کرے گا اور شام میں موجود عیسیٰ ابنِ مَریم عَليهِ السَّلام کے ساتھ جا کر مِل جائے گا۔‘‘ 
حضرت ابو ہریرہ رَضِىَ اللّٰه تعالىٰ عَنه نے فرمایا، 
’’اگر میں اُس وقت تک زندہ رہا تو میں اپنا سب کچھ بیچ کر بھی اُس لشکر کا حِصَّہ بَنُوں گا۔ اور پھر جب اللّٰه ہمیں فتح نصیب کرے گا تو میں ابو ہریرہ (جہنم کی آگ سے) آزاد کہلاؤں گا۔ پھر جب میں شام پہنچوں گا تو عیسیٰ ابنِ مَریم عَليهِ السَّلام کو تلاش کر کے انہیں بتاؤں گا کہ میں مُحَمَّد صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم كا ساتھی رہا ہوں۔‘‘ 
رسول پاک صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے تَبَسُّم فرمایا اور کہا، ’’بہت مشکل، بہت مشکل‘‘۔
کتاب الفتن۔ صفحہ ۴۰۹
آنے والے اَدوَار بڑے پُرفِتن نظر آتے ہیں اور اس کے مُتعلّق بھی سَرکار صَلَّى اللّٰه عَليهِ وَ سَلَّم نے فرمایا تھا کہ میری اُمَّت پر ایک دَور ایسے آئیگا جس میں فِتنے ایسے تیزی سے آئینگے جیسے تسبیح ٹوٹ جانے سے تسبیح کے دانے تیزی سے زمین کی طرف آتے ہیں.

Leave a comment